Saturday 10 October 2020

شاہ عبدالحق محدث دہلوی اور یزید

 یہ کہنا کہ یزید نے امام حسین کے قتل کا حکم نہیں دیا مردود اور باطل ہے:

 حضرت شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں :

 ایک طبقہ کی رائے ہے کہ یزید نے امام حسین (ع) کے قتل کا حکم نہیں دیا نہ ہی وہ آپ کی شہادت پر رضامند تھا ۔ ہمارے نزدیک یہ رائے مردود اور باطل ہے ۔ مزید لکھتے ہیں : ایک طبقہ کی رائے یہ ہے کہ قتلِ حسین (ع) گناہِ کبیرہ ہے ۔ کیونکہ ناحق قتلِ مومن کفر نہیں گناہِ کبیرہ ہے اور لعنت تو کافروں کے لئے مخصوص ہے ۔ ایسی رائے رکھنے والوں پر افسوس ہے ۔ وہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے کلام سے بھی بے خبر ہیں ۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا اور ان کی اولاد سے بغض و عداوت اور ان کی تکلیف و توہین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے عداوت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ایذا کا سبب بھی ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ حضرات یزید کے متعلق کیا فیصلہ کریں گے ؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی توہین اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے عداوت کفر و لعنت کا سبب نہیں ؟ کیا یہ بات جہنمی ہونے کے لئے کافی نہیں؟ 

 تکمیل الایمان فارسی شیخ محقق مطبوعہ الرحیم اکیڈمی کراچی صفحہ نمبر 172۔






یزید پر لعنت کرنا حنفی عالم یوسف بن تغری بردی

 مشہور حنفی عالم یوسف بن تغری بردی یزید ابن معاویہ پر لعنت کے حوالے سے علماء کے اقوال پر تبصرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں

"میں کہتا ہوں بلاشبہ یزید پر لعنت کی جائے گی اور اس پر لعنت کا حکم بھی دیا جائے گا کیا وہ نہیں جانتا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے ابن مرجانہ عبید اللہ ابن ذیاد کو امام حسین (ع) کے قتل پر لالچ دیا اور ابھارا اور اس نے اس پر لازم کیا کہ وہ فوج جمع کرے اور امام حسین سے جنگ کرے۔ جس شخص کے پاس عقل صحیح اور ذوق سلیم ہے اسے ذرا برابر بھی شک نہیں کہ بلاشبہ یزید قتل حسین سے راضی بھی تھا اور ان کی شہادت پر خوش ہوا پس یزید ہر حال اور ہر جہت سے پکا لعنتی ہے۔"

 مورد اللطافة فيمن ولى السلطنة والخلافة صفحہ: 67 یوسف بن تغری بردی حنفی۔









Tuesday 7 July 2020

امام علی پر سب و شتم اور اجتہاد معاویہ (ل)

 علامہ احمد الغمازی الشافعی اپنی کتاب الجواب للسائل المستفیذ لکھتےہیں کہ:


 وفي الصحيح ، صحيح مسلم عن علي عليه السلام قال : «ولذي فلق الحبة وبرأ النسمة إنه لعهد عهده إلي رسول الله صلي الله عليه وسلم : أن لا يحبني إلا مؤمن ولا يبغضني إلا منافق ». وفي الصحيح الحاكم و غيره : «من سبّ عليا فقد سبّني ومن سبّني فقد سب الله» و من سبّ الله فقد كفر ، وفي الصحيح و غيره مما تواتر تواتراً مقطوعاً به : «من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه» ... والمقصود من هذه الأحاديث الصحيحة المتفق عليها مع ما تواتر من لعن معاوية لعلي علي المنبر طول حياته وحياة دولته إلي عمر بن عبد العزيز وقتاله وبغضه ، يطلع من أنه منافق كافر فهي مؤيدة لتلك الأحاديث الأخري۔ ويزعم النواصب أن ذلك (أعني لعن معاوية لعلي) كان اجتهاداً ، مع أن النبي صلي الله عليه وسلم يقول في مطلق الناس : «لعن المؤمن كقتله» فإذا كان الإجتهاد يدخل اللعن وإرتكاب الكبائر فكل سارق وزان وشارب وقاتل يجوز أن يكون مجتهداً ، فلا حد في الدنيا ولا عقاب في الآخرة۔




کتاب صحیح مسلم میں یہ حدیث علی (ع) سے نقل ہوئی ہے کہ: اس خدا کی قسم کہ جس نے دانے کو شگاف کیا ہے اور انسان کو خلق کیا ہے، میں نے رسول خدا کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ: اے علی تم سے محبت نہیں کرے گا، مگر مؤمن اور تم سے دشمنی نہیں کرے گا، مگر منافق، اور کتاب صحیح حاکم وغیرہ میں آیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: جو بھی علی کو گالی دے گا تو اس نے مجھے گالی دی ہے اور جو مجھے گالی دے گا تو اس نے خدا کو گالی دی ہے اور جو خدا کو گالی دے گا، وہ کافر ہے۔ اور متواتر و صحیح احادیث سے یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ رسول خدا کی حدیث ہے کہ ان حضرت نے فرمایا: جس جس کا میں مولا ہوں، پس میرے بعد علی بھی اس اس کا مولا ہے، خدایا اس سے محبت فرما جو علی سے محبت کرے اور اس سے دشمنی فرما جو علی سے دشمنی کرے۔ ان صحیح احادیث سے اور اسی طرح علی پر سبّ و لعن اور معاویہ کا ان حضرت سے جنگ کرنا کہ جو عمر ابن عبد العزیز کے زمانے تک جاری رہی، یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ معاویہ، منافق اور کافر ہے، البتہ ان روایات کے علاوہ کوئی دوسری روایات ہیں کہ جو اسی نتیجے کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ ناصبی کہ جو گمان کرتے ہیں کہ معاویہ یہ سارے کام اجتہاد کی وجہ سے انجام دیتا تھا، یہ اصل میں ان غلط بہانوں سے معاویہ کے دامن کو پاک کرنا اور پاک رکھنا چاہتے ہیں، ایسے کہ گویا ان ناصبیوں نے رسول خدا کے اس فرمان کو نہیں سنا کہ: مؤمن پر لعنت و نفرین کرنا، اسکو قتل کرنے کے مترادف ہے، لہذا اگر ہر جرم جیسے لعنت و نفرین یا گناہان کبیرہ کی اجتہاد کے ذریعے سے توجیہ کرنا صحیح ہو تو پھر ہر چور، زنا کرنے والا، شراب خوار اور قاتل اپنے جرم کو اجتہاد کے ذریعے سے توجیہ کر کے حدّ شرعی (سزا) سے فرار کر سکتا ہے تو اس سے دنیا میں شرعی سزا ملنا اور آخرت میں عذاب ہونا بالکل ختم ہو جائے گا۔


 الجواب المفيد ، للسائل المستفيد ، احمد الغماري ، صفحہ: 58، 59 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ،‌ بيروت ، 1423 هـ . 






  

Friday 26 June 2020

حضرت عثمان پر ام المومنین عائشہ کی شدید تنقید

مورخ ابوزید احمد بن سھل البلخی لکھتے ہیں کہ: " محمد بن ابی بکر، طلحہ و زبیر اور حضرت عائشہ حضرت عثمان کے زبردست مخالفین میں سے تھے، مہاجرین و انصار نے بھی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا اور کوئی سروکار نہیں رکھا تھا جو حالات پیش آرہے تھے اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہے تھے۔ حضرت عائشہ نے عثمان پر مسجد میں اعتراض کرتے ہوئے رسول کے بال، نعلین اور لباس نکال کر کہا کے کتنی جلدی تم نے سنت رسول کو بدل دیا اور سیرت رسول کو فراموش کردیا۔ حضرت عثمان نے جب حضرت عائشہ کی یہ باتیں سنیں تو خاندان ابن قحافہ (حضرت ابو بکر کے خاندان) کو برا بھلا کہنے لگے اور وہ غصے میں اس قدر آپے سے باہر تھے کہ جو منہ میں آرہا تھا کہے جارہے تھے۔ 


 البداء والتاریخ ابوزید احمد بن سھل البلخی متوفی 322 ہجری جلد: 5 صفحہ: 205


مورخ اعثم کوفی لکھتے ہیں کہ:

ام المومنین حضرت عائشہ کو جب معلوم ہوگیا کے لوگوں نے عثمان کے قتل کا مصمم ارادہ کرلیا ہے تو آپ نے کہا: اے عثمان تم نے مسلمانوں کے بیت المال کو اپنی ذاتی ملکیت بنالیا ہے، مسلمانوں کے جان و مال پر بنوامیہ کو مسلط کردیا ہے انہیں اقتدار سونپ دیا ہے اس طرح تم نے سارے مسلمانوں کو مصائب و آلام میں جھونک دیا ہے اللہ زمین و آسمان کی برکت تم سے اٹھالے اگر ایسا نہ ہوتا کہ تمام مسلمانوں کی طرح تم بھی نماز پڑھتے ہوتے تو تمہیں اونٹ کی طرح قتل کر ڈالا جاتا۔ جب حضرت عثمان نے حضرت عائشہ کی ان باتوں کو سنا تو قرآن کی آیت پڑھنے لگے: "ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ کَانَتَا تَحۡتَ عَبۡدَیۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَیۡنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمۡ یُغۡنِیَا عَنۡہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا وَّ قِیۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیۡنَ" "اللہ تعالٰی نے کافروں کے لئے نوح کی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی یہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو ( شائستہ اور ) نیک بندوں کے گھر میں تھیں ، پھر ان کی انہوں نے خیانت کی پس وہ دونوں ( نیک بندے ) ان سے اللہ کے ( کسی عذاب کو ) نہ روک سکے اور حکم دے دیا گیا ( اے عورتو ) دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی چلی جاؤ ۔ (سورہ تحریم آیت 10) 


 الفتوح احمد بن اعثم الکوفی جلد:2 صفحہ: 419








Tuesday 16 June 2020

ربوبیت ائمہ کا عقیدہ

امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام پوچھا گیا کہ اے فرزند رسول (ص) ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میرے ساتھی جو آپ حضرات کی ولایت قبول کرتے ہیں اور پھر یہ بھی مانتے ہیں کہ آپ (ع) کے بتائے ہوئے تمام اوصاف امام علی علیہ السلام کے صفات ہیں اور وہی تمام عالم کے رب ہیں: 

راوی کہتا ہے کہ یہ بات سن کر امام رضا (ع) کا سارا بدن کانپ اٹھا اور پسینہ پسینہ ہوگئے اور فرمایا:

 "اللہ پاک اور منزہ ہے ہر اس شے سے جس کے ظالمین و کافرین قائل ہیں کیا امام علی ع دوسروں کی طرح کھانا کھاتے اور پیتے اور نکاح کرتے اور لوگوں کی طرح ظاہر و آشکار تھے؟ اور ان صفات کے ساتھ وہ باخضوع و خشوع نماز پڑھتے اور خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ کھڑے ہوتے اور ہمیشہ خدا کے سامنے توبہ کیا کرتے بھلا کیا ان صفات والا خدا ہوسکتا ہے؟؟؟؟ اگر یہ خدا ہوجائیں تو تم میں سے ہر ایک خدا ہوجائے کیوں کہ یہ سارے اوصاف حادث ہو حدوث کی علامت ہیں اور وہ ان سب میں شریک ہیں لہذا علی خدا نہیں ہیں۔

 اس شخص نے کہا: اے فرزند رسول ان کا اعتقاد ہے کہ ان سے معجزات ظاہر ہوئے جن پر اللہ کے علاوہ کوئی قادر نہیں اور یہی دلیل ہے کہ وہ خدا ہیں اور یہ دوسری حادث عاجز مخلوق کے درمیان خدائی صفات کے ساتھ ظاہر ہوئے اسی نے ان لوگو کو اشتباہ اور فریب میں ڈال دیا۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ لوگ اس بات سے کنارہ کشی نہیں کرسکتے کہ کوئی شخص پلٹ کر اسی عقیدہ کو دوہرا کر کہے کہ جب امام علی سے فقر و فاقہ کا اظہار ہو تو دلیل ہے کہ اگر ایک فرد ان صفات کا مالک ہو اور ضعیف و محتاج بھی اسی کی طرح ہو تو اس کا عمل معجزہ نہیں ہوسکتا یہیں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس نے ایسے معجزات ظاہر کیے وہ معجزات اس قادر مطلق کا فعل ہے جو مخلوق سے شباہت نہیں رکھتا اور نہ اس حادث محتاج کا بھی فعل نہیں جو کمزوروں کا شریک ہو۔ 


:مزید آپ امام علی اب موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا

"بیشک جو بھی امام علی اور اولاد علی (ع) کو یا ان میں سے ایک کو بھی رب مان لے وہ کافر ہے اور راہ راست سے گمراہ ہے۔

الاحتجاج الطبرسی ابومنصور احمد بن علی طبرسی جلد:2  صفحہ: 
200،201


"ائمہ کے لیے دعوی ربوبیت کرنے والوں سے ائمہ (ع) کی بیزاری"

امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا: 
جو شخص بھی انبیاء اور ائمہ کے لیے دعوی ربوبیت کرے اور جو شخص بھی غیر نبی کے لیے دعوی نبوت کرے یا غیر امام کے لیے دعوی امامت کرے تو ہم دنیا و آخرت میں اس سے بیزار ہیں۔

عیون الاخبار الرضا (ع) از شیخ صدوق رح۔










Friday 12 June 2020

حضرت ابوبکر کا خاک پر سجدہ کرنا۔

سعودی عرب کے نامور اسکالر پروفیسر ڈاکٹر رواس قلعہ جی اپنے فقہی انسائیکلو پیڈیا میں زمین پر نماز کی ادائیگی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: 

 "حضرت ابوبکر کی رائے یہ تھی کہ سجدہ رب کےسامنے بندے کے تذلل کی صحیح عکاسی کرتا ہے اور تذلل کا یہ اظہار اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک بندہ مومن اپنی پیشانی کو زمین پر سجدے میں رکھ کر خاک آلود نہ کرے اس لیے حضرت ابوبکر نمدوں (اونی کپڑے کی ایک قسم) پر سجدہ کرنے سے روکتے تھے اور خود زمین پر اس طرح سجدہ کرتے یا نماز پڑھتے کہ پیشانی مٹی تک پہنچ جائے۔" 

 فقہ حضرت ابوبکر ڈاکٹر رواس قلعہ جی جلد:1 صفحہ: 175




الفيئة الباغية ملا علی قاری

ملا علی قاری حدیث عمار رض "تقتلک الفئتہ الباغیہ" کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

"معاویہ پر واجب تھا کے وہ بغاوت چھوڑ خلیفہ برحق کی اطاعت کی طرف رجوع کرتے مخالفت چھوڑ کر خلافت اعظمی کی طلب سے بعض آجاتے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ باطن میں باغی تھے اور ظاہر میں وہ قصاص عثمانی کی آڑ لے کر دکھاوا کرنے والے تھے۔ پس یہ حدیث ان پر طعن کرنے والی اور ان کی اتباع سے روکنے والی ہے لیکن ہوکر وہی رہا جو تقدیر میں تھا ان کے نزدیک قرآن و حدیث میں جو کچھ تھا وہ متروک ہوگیا۔ اللہ کی رحمت ہو اس پر جس نے تعصب و بے راہ روی سے کنارہ کیا اور اعتقاد میں اعتدال کو محبوب رکھا۔"


 مرقات المفاتیح شرح مشکات ملا علی قاری جلد:10 صفحہ: 200





Wednesday 10 June 2020

فصاحت و بلاغت امام علی علیہ السلام

احمد حسن زیات امام علی علیہ السلام کی فصاحت و بلاغت اور فن خطابت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

 "رسول اللہ (ص) کے بعد ہمیں حضرت علی سے ذیادہ فصیح و بلیغ کوئی نظر نہیں آتا، نہ فن خطابت میں ان کے ہم پلہ کوئی ہوا، آپ (ع) وہ مرد دانا تھے جن کے کلام سے حکمت و دانائی کے چشمے ابلتے تھے آپ کی زبان پر بلاغت ٹپکتی تھی اور ایسے واعظ تھے جو دلوں اور کانوں کو موہ لیتے آپ کی تحریریں دقیق اور مسکت دلائل سے پر ہوتیں تھیں ایسے قادر الکلام تھے کے جس موضوع پر چاہے تقریر کرلیتے تھے۔ آپ بلااتفاق مسلمانوں کے سب سے بڑے خطیب اور انشاء پرداز ہیں۔ جہاد کی ترغیب میں آپ کے خطبات، معاویہ کی جانب بھیجے گئے آپ کے خطوط، مور اور چمگادڑ اور دنیا کے اوصاف پر آپ کی تحریریں ، مالک اشتر کے نام عہد نامہ یہ سب عربی ادب کے معجزات اور بشری عقل کے بے نظیر شاہکار ہیں۔"

 تاریخ الادب العربی احمد حسن زیات صفحہ: 186





لایفضلی؟

شیخ محمود سعید ممدوح مصری تفضیل امام علی علیہ السلام سے متعلق صحیح بخاری میں موجود امام علی ع کے قول:

 ****عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ ، قَالَ : قُلْتُ لِأَبِي : أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ : قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ ، قَالَ : ثُمَّ عُمَرُ وَخَشِيتُ أَنْ يَقُولَ : عُثْمَانُ ، قُلْتُ : ثُمَّ أَنْتَ ، قَالَ : مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ۔ محمد بن حنفیہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد ( علی رضی اللہ عنہ ) سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب ( پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد؟ ) کہہ دیں گے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اس لیے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں۔ ****

 پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مقام احسان پر فائز ہستیوں کے دو مقام ہیں: مقام تواضع جس میں وہ اپنے حق کو پست ظاہر کرتے ہیں جیسا کہ حضرت علی نے فرمایا: "لایفضلی" اور ان کا اپنے بیٹے سے یہ کہنا کہ تمھارا باپ عام مسلمان شخص ہے اور دوسرا مقام وہ ہے جس میں وہ خود پر ہونے والے انعامات ربانیہ کا چرچا کرتے ہیں۔ جیسا کہ صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ حضرت علی نے متعدد مقامات پر انعامات الہیہ کا ذکر کیا اور ان تمام امور میں اس نبی (ص) کے متبع رہے جنہوں نے کبھی "لاتخیرونی علی موسی" یعنی مجھے موسی (ع) پر فضیلت مت دو وغیرہ فرمایا اور کبھی فرمایا: انا سید ولد آدم ولافخر کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور کوئی فخر نہیں۔ 

 غایتہ التبجیل وترل القطع فی التفضیل شیخ محمود ممدوح مصری صفحہ: 264 مکتبہ الفقیہ









سیدہ فاطمہ (س) کی وصیت:

ابن قتیبہ دینوری نے تاویل مختلف الحدیث میں لکھا ہے: 

 وقد طالبت فاطمة رضي الله عنها أبا بكر رضي الله عنه بميراث أبيها رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما لم يعطها إياه حلفت لا تكلمه أبدا وأوصت أن تدفن ليلا لئلا يحضرها فدفنت ليلا.

 فاطمہ(س) نے ابوبکر سے اپنے باپ کی میراث کا مطالبہ کیا ابوبکر نے قبول نہیں کیا تو فاطمہ(س) نے قسم کھائی کہ ابوبکر کے ساتھ بات نہیں کریں گی اور وصیت کی کہ انہیں رات کو دفن کیا جائے اور وہ (ابوبکر) ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو۔

 تاویل المختلف الحدیث أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة. صفحہ :427



اہل شام کا بغض

امام جلال الدین ابی بکر السیوطی اپنی کتاب تدریب الراوی میں لکھتے ہیں: 

 "اہل شام حضرت علی سےبغض و عناد کی وجہ سے ہر "علی" نامی شخص کو ”عُلیا“ کہا کرتے تھے یہی وجہ تھی کے مسلمہ کے والد اور رباح کے بیٹے کےنام کو بجائے علی کے عُلیا کے نام سے پکارا جانے لگا۔" 

 تدریب الراوی امام سیوطی صفحہ: 588



امام موسی کاظم علیہ السلام کی عبادت

امام موسی ابن جعفر علیہ السلام کو سندی بن شاہک کے پاس قید میں رکھا گیا اس نے اپنی بہن سے ان کی نگرانی کرنے کے لیے کہا تو وہ رضا مند ہوگئی چناچہ وہ کہتی ہے: 

 "جب (موسی ابن جعفر) عشاء کی نماز پڑھ لیتے تو اللہ کی حمد و ثناء اور دعا میں مشغول ہوجاتے حتی کہ ساری رات اسی عالم میں گزر جاتی پھر رات کے آخری حصے میں کھڑے ہوکر فجر تک نناز پڑھتے رہتے پھر فجر کی نماز ادا کرتے اور طلوع شمس تک ذکر و اذکار میں مشغول رہتے پھر چاشت کے وقت تک بیٹھے رہتے بعد ازاں اٹھ کر مسواک کرتے اور کچھ تناول فرمالیتے پھر زوال سے کچھ پہلے تک آرام فرماتے اس کے بعد وضو کرتے اور ظہر سے عصر تک نماز میں مشغول رہتے عصر سے مغرب کے درمیان قبلہ کی جانب متوجہ رہتے اور ذکر کیا کرتے پھر مغرب سے عشاء تک نماز میں مشغول ہوجاتے یہ آپ (موسی ابن جعفر) کا معمول تھا سندی کی بہن جب کبھی آپ کو دیکھتی تو کہتی وہ لوگ برباد ہوں جنہوں نے اس متقی و پرہیزگار شخص کو قید کررکھا ہے۔ 

 تہذیب الکمال امام مزی جلد:29 صفحہ: 50





امام زین العابدین ع کی عاجزی

حضرت طاوس کہتے ہیں: 

میں نے امام علی ابن حسین علیہ السلام کو بیت اللہ کے پاس مقام حطیم میں حالت سجدہ میں دیکھا تو میں نے اپنے دل میں کہا: یہ اہلبیت نبوی میں سے کوئی نیک اور صالح شخص ہیں، مجھے ضرور سننا چاہیے کہ یہ سجدہ میں کیا کہہ رہے ہیں لہذا میں جب قریب گیا اور کان لگا کر سنا تو وہ اللہ تعالی کے حضور یوں آہ و زاری کررہے تھے:عبيدك بفنائك،مسكينك بفنائك،سائلك بفنائك ، فقيرك بفنائك۔۔۔ "اے اللہ میں تیرا ادنی بندہ تیرے گھر کے صحن میں حاضر ہے، تیرا مسکین بندہ، تیرے در سے مانگنے والا اور تیرا فقیر بندہ تیرے در پر حاضر ہے"۔ حضرت طاوس کہتے ہیں کی رب ذوالجلال کی قسم! اس کے بعد میں جب مشکل میں پڑا اللہ سے ان ہی الفاظ کے ساتھ دعا کی تو اللہ نے میری وہ مشکل حل فرمادی۔ 


 البدایہ والنہایہ امام ابن کثیر جلد:9 صفحہ:186 صفة الصفوة امام ابن جوزی صفحہ:327





امام جعفر صادق کا علمی مقام

امام جعفر صادق علیہ السلام اور دعوی سلونی:

 عمر وابن ابی المقدام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ:

 قال کنت اذا نظرت الیٰ جعفر بن محمد علمت انہ من سلالة البنیین قد رایتہ واقفا عند الجمرة یقول سلونی سلونی ۔ 

 عمرو کہتے ہیں کہ میں جب بھی جعفر بن محمد کی طرف نظر دوڑاتا تو جان لیتا کہ آپ انبیاء کی نسل میں سے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا جب آپ ایک پتھر پر کھڑے تھے اور یہ فرما رہے تھے سلونی سلونی ۔


 امام مالک بن انس امام جعفرِ صادق علیہ السلام سے متعلق فرماتے ہیں:

 علمی اعتبار سے جعفر بن محمد علیہ السلام سے بہتر انسان نہ آنکھون نے دیکھا نا کانون نے سنا نا ہی کسی انسان کے تصور میں آیا ہے. عبادت و زہد و تقوی میں بھی آپ علیہ اسلام کا یہی عالم تھا میں نے آپ ع کو جب دیکھا تین حالتوں میں ہی دیکھا یا تو مشغولِ نماز ہوتے یا حالتِ روزہ میں ہوتے یا تلاوتِ کلامِ پاک میں مصروف ہوتے.


 سیرالاعلام النبلاء امام ذہبی جلد 6 صفحہ: 556 تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی جلد 1 صفحہ 311





عمران ابن حطان خارجی اور امام بخاری

امام ابن کثیر لکھتے ہیں:

 "کہ یہ بخاری ہیں جنھوں نے حضرت علی (ع) کے قاتل عبدالرحمان بن ملجم کی تعریف کرنے والے عمران بن حطان الخارجی سے (صحیح بخاری ) میں روایت لی ہے اور حالانکہ یہ شخص بدعت کے بڑے داعیوں میں سے تھا۔"

 اختصار علوم الحدیث امام ابن کثیر دمشقی صفحہ: 198




علم امام علی علیہ السلام!

قیامت تک جس شے کے بارے میں سوال کرو گے میں بتادوں گا۔ امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام!! 


 "عن ابی وھن بن عبداللہ بن ابی الطفیل، قال: شھدت علی ابن ابی طالب (ع) وھو یخطب وھو یقول: سلونی فواللہ، لاتسالونی عن شیء یکون الی یوم القیامہ الااخبرتکم بہ، وسلونی عن کتاب اللہ فواللی مامنہ آیتہ الا وانا اعلم بلیل نزلت ام بنھار ام بسھل ام بجبل۔"

 حضرت وھب ابن عبداللہ ابن ابو طفیل نے فرمایا: میں نے حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کو دیکھا کہ وہ خطاب کرتے ہوئے فرمارہے ہیں: مجھ سے سوال کرو، اللہ کی قسم تم قیامت تک جس شے کے بارے میں سوال کرو گے میں تمہیں اس کے بارے میں بتادوں گا۔ مجھ سے سوال کرو اللہ کی کتاب کے بارے میں کوئی ایک ایسی آیت نہیں جس کے بارے میں مجھے علم نہ ہو کہ آیا وہ رات کو نازل ہوئی یا دن کو، میدان میں نازل ہوئی یا پہاڑ پر۔

اسنادہ صحیح۔ 

 اخبار مکة امام احمد الازرقی صفحہ:92


عن سعید ابن المسیب قال: ماکان احد بعد رسول اللہ (ص) اعلم من علی ابن ابی طالب (ع)۔ 

 سعید ابن مسیب نے فرمایا: رسول اللہ (ص) کے بعد حضرت علی ابن ابی طالب (ع) سے بڑھ کر کوئی صاحب علم نہیں تھا۔ الکنی والاسماء حافظ الدولابی رقم: 1096 صفحہ: 614









ستر ہزار منبروں سے امام علی (ع) پر ترا کیا جاتا تھا۔

شیخ ابوالفتوح عبداللہ تلیدی لکھتے ہیں:


 "عہد بنوامیہ میں ستر ہزار سے زائد منبروں سے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر لعنت کی جاتی تھی۔"


 الأنوار الباهرة بفضائل أهل البيت النبوي والذرية الطاهرة ، ابو الفتوح عبداللہ بن عبداللہ تلیدی صفحہ: 44، دار ابن حزم۔