Monday 17 April 2017

یومِ وفات معاویہ اور رجب کے کونڈے

٢٢ رجب: کیا معاویہ کا یومِ وفات ہے؟
معاویہ کا حقیقی یومِ وفات ائمہ کبار اہلسنت کے نزدیک:

١. امام لیث بن سعد کے مطابق معاویہ کا انتقال 9 رجب کو ہوا.

٢.امام ابن جریر طبری کے مطابق یہ انتقال یکم رجب کو ہوا.

٣.امام ابن جوزی کے مطابق معاویہ کی وفات کا دن ١٥ رجب ہے.

٤.امام عبدالبر قرطبی کے مطابق معاویہ کی وفات ٢٨ جمادی الثانی کو ہوئی.

٥.امام ابن حجر عسقلانی کے مطابق بھی معاویہ کی وفات ٢٨ جمادی الثانی کو ہی ہوئی.

ان تمام کبار ائمہِ اہلسنت جن کی صداقت اور علمی قابلیت پر کسی اہلسنت کو شک نہین کے مطابق معاویہ کی وفات کے دن مین اختلاف ضرور ہے مگر کسی بھی جلیل القدر امام کے مطابق یومِ وفاتِ معاویہ ٢٢ رجب المرجب نہیں.

حوالے: البدایہ والنہایہ امام ابن کثیر, لسان المیزان ابن حجر عسقلانی اور الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب ابن عبد البر قرطبی.

معاویہ معمولی خطوط کے کاتب تھے یا کاتبِ وحی؟


امام شمس الدين ذهبی (متوفي 748هـ)  سير اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں :
ونقل المفضل الغلابي عن أبي 
الحسن الكوفي قال كان زيد بن ثابت كاتب الوحي وكان معاوية كاتبا فيما بين النبي صلى الله عليه وسلم وبين العرب.


زيد بن ثابت كاتب وحي تھے اور معاویہ عرب کو خط لکھتا تھا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی طرف سے .
الذهبي ، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان أبو عبد الله ، سير أعلام النبلاء ، ج 3   ص 123 ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط ، محمد نعيم العرقسوسي ، ناشر : مؤسسة الرسالة - بيروت  ، الطبعة : التاسعة ، 1413هـ .


ابن حجر عسقلاني  (متوفي852هـ) نے بھی الإصابة میں لکھا ہے کہ ::


وقال المدائني كان زيد بن ثابت يكتب الوحي وكان معاوية يكتب للنبي صلى الله عليه وسلم فيما بينه وبين العرب.


مدائني کہتے ہیں : زيد بن ثابت کاتب وحی تھے اور معاویہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہکی طرف سے عرب کو خطوط لکھتا تھا.


العسقلاني ، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل الشافعي ، الإصابة في تمييز الصحابة ، ج 6 ، ص 153 ، تحقيق : علي محمد البجاوي ، ناشر : دار الجيل - بيروت ، الطبعة : الأولى ، 1412 - 1992 .


ابن أبي الحديد شافعي (متوفي655هـ) لکھتے ہیں کہ :


تاریخ اور سیرت پیامبر گرامی  صلی اللہ علیہ و آلہ کے محققین لکھتے ہیں کہ علی  علیہ السلام اور زید بن ثابت اور زید بن ارقم وحی کو لکھا کر تا تھے  جبکہ حنظلہ بن ربیع تیمی اور معاویہ خطوط  لکھا کرتے تھے جو دیگر ممالک اور قبائل کو لکھے جاتے تھے اور انکی حوائج کو لکھتے تھے اسی طرح بیت المال حساب کتاب ۔


إبن أبي الحديد المعتزلي ، أبو حامد عز الدين بن هبة الله ، شرح نهج البلاغة ، ج 1 ، ص 201 ـ 202 ، تحقيق : محمد عبد الكريم النمري ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان ، الطبعة : الأولى ، 1418هـ - 1998م.


محمود أبو رية مصري (متوفي 1385هـ) اهل سنت کے  عالم معاویہ کے کاتب وحی ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں


ذلك أنهم أرادوا أن يزدلفوا إلى معاوية فجعلوه من ( كتاب الوحي ) وأمعنوا في هذا الازدلاف ، فرووا أنه كتب آية الكرسي بقلم من ذهب جاء به جبريل هدية لمعاوية له من فوق العرش ، وقد فشا هذا الخبر بين كثير من الناس على حين أنه في نفسه باطل ، تأباه البداهة ويدفع من صدره العقل ! إذ كيف يأمن النبي صلى الله عليه وآله لمثل معاوية على أن يكتب له ما ينزل في القرآن ! وهو وأبوه وأمه ممن أسلموا كرها . ولما يدخل الايمان في قلوبهم ! إن هذا مما لا يمكن أن يقبله العقل السليم ! وأما من ناحية النقل فإنه لم يأت فيه خبر صحيح يؤيده ، ولقد كان على الذين ( وضعوا ) هذا الخبر أن يسندوه ببرهان يؤيده وذلك بأن يأتوا ولو بآية واحدة قد نزلت في القرآن وكتبها معاوية ! على أننا لا نستعبد أن يكون قد كتب للنبي صلى الله عليه وآله في بعض الاغراض التي لا تتصل بالوحي ، لان هذا من الممكن ، أما أن يكتب شيئا من القرآن فهذا من المستحيل . قال المدائني كان زيد بن ثابت يكتب الوحي وكان معاوية يكتب للنبي صلى الله عليه وآله فيما بينه وبين العرب.


ایک گروہ نے معاویہ کی چاپلوسی اور تقرب کے لئے اس کے    لئے کاتب وحی  لقب جعل کیا  ہے  اور کہتے ہیں معاویہ نے ایت الکرسی کو اس سونے کے قلم سے لکھا ہے جسے  جبرئیل آسمان سے معاویہ کے لئے ہدیہ کے طور پر  لائے تھے اور یہ بات لوگوں میں مشہور ہوگئی جب کہ یہ جھوٹ اور باطل ہے اور عقل اسے تسلیم نہیں کرتی ہے اس لئے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہکیسے اطمنیان ہو کہ جو معاویہ لکھ رہا ہے وہ وحی ہے اسلئے وہ خود  اور  اسکا باپ اور اسکی ماں نے ناچاہتے ہوئے اسلام قبول کیا ہے  اور انکی دلوں  میں ایمان داخل بھی نہیں ہوا ہے اسے عقل سلیم قبول نہیں کرتی ہے جہاں تک نقل کا تعلق ہے تو کوئی بھی خبر صحیح اس کی تائید نہیں کرتی ہے اور مدعین کاتب وحی معاویہ پر لازم ہے کہ وہ مثال لائے ایک آیت جسے معاویہ نے لکھی ہو وہ بتائیں۔


 لیکن ممکن ہے غیر وحی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے لئے لکھا ہو  لیکن قران لکھا ہو یہ محال ہے مدائنی نے لکھا ہے زید بن ثابت وحی لکھتے تھے اور معاویہ خطوط  عرب کے لئے لکھتا تھا


محمود أبو رية ، شيخ المضيرة أبو هريرة ، ص 205 ، ناشر : منشورات مؤسسة الأعلمي للمطبوعات ، بيروت ، الثالثة.

دفاعِ فضائلِ معاویہ کرتے ہوئے ان کے نام کے ساتھ ہمیشہ کے لیے"کاتبِ وحی" کے الفاظ جوڑ دیے گئے جب کہ معاویہ کو اہلسنت روایات کے مطابق صحبتِ نبوی محض آخری دو سال میسر آئی اس سے قبل مسلسل 21 برس دوسرے صحابہ مثلاً حضرت علی حضرت ابی بن کعب زید بن ثابت کاتبِ وحی رہے مگر ان حضرات کے اسماء کے ساتھ کاتبِ وحی کے الفاظ ہمیشہ کے لیے جوڑنے کی ضگ نجی طررورت پیش نہیں آئی کیونکہ ان کے فضائل می صحیح احادیث موجود ہیں جب کے فضائل معاویہ میں ایک بھی حدیث صحیح نہیں....

معاویہ کے فضائل اور "صحیح ترین" صحیح بخاری کے مولف امام بخاری کے استاد کا عقیدہ:

امام اسحاق بن راھویہ امام بخاری کے اساتذہ میں سے ہیں معروف کتاب صحیح بخاری کی جامع شرح فتح الباری کے مولف امام ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:

فضائل معاویہ مین باکثرت احادیث نقل کی گئی ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک ایسی روایت نہیں جس کی سند صحیح ہو یہی قول امام بخاری کے شیخ امام اسحاق بن راھویہ امام نسائی اور دوسرے علماءِ حدیث کا قطعی قول ہے.

فتح الباری شرح بخاری امام ابن حجر عسقلانی ج8 ص476 طبع بیروت.

Monday 30 January 2017

حدیثِ ردِ شمس اور ابن جوزی کی خطاء

"حدیثِ رد الشمس اور ابن جوزی کی خطا۔" 

حافظ جلال الدین ابوبکر السیوطی کہتے ہیں:
ابن جوزی کی دلیل (جس کی بنیاد پر حدیثِ ردِ شمس کو ضعیف کہا جاتا ہے)  یہ ہے کہ اس حدیث کی سند میں مضطرب راوی ہیں اور اسماء بنت عمیس سے مروی حدیث میں فضیل بن مرزوق ضعیف ہے اور دوسرے طریق سے بھی جس کا راوی عبدالرحمن بن شریک ہے جن کے بارے میں ابوحاتم کہتے ہیں کہ وہ حدیث بیان کرنے میں کمزور ہیں۔۔ میں (سیوطی)  کہتا ہوں کہ فضیل ثقہ اور صدوق ہیں ان نے امام مسلم اور اصحابِ سنن اربعہ نے سند لی ہے جیسا کہ ابن حجر نے تھذیب التھذیب میں کہا ہے۔ اور ابن شریک کو ابوحاتم کے علاوہ تمام ائمہ نے ثقہ کہا ہے ان سے امام بخاری نے الادب المفرد میں روایات لین ہیں۔

النکت البدیعات امام سیوطی

امام محمد بن یوسف الصالحی نے حدیثِ ردِ شمس کو مختلف طرق سے بیان کرنے کے بعد ابن جوزی کا رد پیش کرتے ہوئے فرمایا:

ھذا الحدیث رواہ الطحاوی فی شرح مشکل الاثار عن اسماء بنت عمیس من طریقین وقال: ھذان الحدیثان ثابتان ورواتھما ثقات۔ وقال الحافظ احمد بن صالح: لاینبغی لمن سبیلہ العلم التخلف عن حدیث اسماء لانہ من اجل علامات النبوۃ۔ وقد انکر الحفاظ علی ابن جوزی ایرادہ الحدیث فی کتاب الموضوعات فقال الحافظ ابو الفضل ابن حجر عسقلانی فی قول النبی ص: احلت لکم الغنائم من کتاب فتح الباری بعد ان اورد الحدیث: اخطاء ابن الجوزی بایرادہ لہ فی الموضوعات وقال الحافظ مغلطائ فی الزھر الباسم بعد ان اورد الحدیث من عند جماعۃ لایلتفت لما اعلہ بہ ابن جوزی من حیث انہ لم یقع لہ الاسناد الذی وقع لھولاء وقال الحافظ جلال الدین ابی بکر السیوطی فی المختصر الموضوعات: افرط ابن جوزی بایرادہ لہ ھنا۔

اس حدیث کو امام طحاوی نے شرح مشکل الاثار میں حضرت اسماء بنت عمیس رض سے دو طریقون سے بیان کیا ہے اور فرمایا: یہ دونون حدیثین ثابت ہیں اور ان کے راوی ثقہ ہیں۔ حافظ احمد بن صالح نے کہا: جس کا راستہ علم ہے اس کو یہ حدیث یاد کرنے سے پیچھے نہیں رہ جانا چاہیے کیونکہ یہ حدیث نبوت کی بڑی نشانیون میں سے ہے۔ 
حفاظ حدیث نے ابن جوزی کا اس حدیث کو کتاب الموضوعات میں لانا نا پسند کیا ہے اور اس کا رد کیا ہے چناچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری شرح بخاری کے باب "قول البنی احلت لکم الغنائم" میں اس حدیث کو وارد کرنے کے بعد فرمایا: ابن جوزی نے اس حدیث کو الموضوعات میں لا کر غلطی کی ہے۔ بیز حافظ مغلطائ نے الزھر الباسم میں اس حدیث کو محدثین کی ایک جماعت سے بیان کرنے کے بعد کہا کہ، ابن جوزی نے اس حدیث پر جو جرح کی ہے کہ اس کی کوئی سند واقع نہیں ہوئی جس طرح ان سب کے لیے واقع ہوئی ہے لہذا ابن جوزی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔ اسی طرح حافظ جلال الدین سیوطی نے مختصر الموضوعات میں فرمایا: ابن جوزی نے اس حدیث کو موضوع قرار دینے میں حد سے تجاوز کیا ہے۔

مزیل اللبس عن حدیثِ رد الشمس امام محمد بن یوسف الصالحی