Thursday 18 October 2018

امام علی ع کی جنگیں اہلحدیث عالم کی زبانی

امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی جنگوں پر ایک مختصر مگر جامع تبصرہ:

معروف اہلِ حدیث عالم نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں

وأما الكلام فيمن حارب عليا كرم الله وجهه فلا شك ولا شبهة أن الحق بيده في جميع مواطنه أما طلحة والزبير ومن معهم فلأنهم قد كانوا بايعوه فنكثوا بيعته بغيا عليه وخرجوا في جيوش من المسلمين فوجب عليه قتالهم وأما قتاله للخوارج فلا ريب في ذلك والأحاديث المتواترة قد دلت على أنه يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية وأما أهل صفين فبغيهم ظاهر لو لم يكن في ذلك إلا قوله صلى الله عليه وسلم لعمار: "تقتلك الفئة الباغية" لكان ذلك مفيدا للمطلوب ثم ليس معاوية ممن يصلح لمعارضة علي ولكنه أراد طلب الرياسة والدنيا بين قوم أغتام لا يعرفون معروفا ولا ينكرون منكرا فخادعهم بأنه طلب بدم عثمان۔

جہاں تک بات ہے ان کی جو علی كرم الله وجهه سے لڑے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ تمام مواقع پر حق حضرت علیؑ کے ہاتھ میں تھا۔ جہاں تک بات ہے طلحہ ،زبير اور وہ جو ان کے ساتھ تھے، انھوں نے بیعت کی علیؑ کی، اور پھربغاوت کرتے ہوئے اسے توڑ دیا اور مسلمانوں میں سے ایک فوج لے کر آئے، لازم تھا کہ ان سے لڑا جاتا۔اور جہاں تک ان جنگوں کا حال ہے جو خوارج سے لڑی گئیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پر متواتر روایات ھیں کہ وہ دین سے خارج تھے جیسے کہ تیر کمان سے نکل جائے۔ اور جہاں تک صفین کے لوگوں کا حال ہے، تو ان کا باغی ہونا ظاہر تھا اگر اس بارے میں اس حدیث کہ ائے عمار تجھے باغی گروہ قتل کرئے گا، کے علاوہ کچھ اور نہ بھی ہوتا تو تب بھی اہلِ شام کی بغاوت ثابت ہوجاتی۔ اور معاویہ علیؑ سے جنگوں میں اصلاح کا خواہشمند نہ تھا، بلکہ ریاست اور دنیا چاہتا تھا، اور وہ ایسی قوم کے ساتھ تھا جو معروف باتوں کا ادراک نہ رکھتے تھے، اور نہ ہی منکر باتوں کا انکار کرتے تھے، سو معاویہ نے انہیں "عثمان کے خون کا بدلہ" کہہ کر دھوکا دیا۔

الكتاب: الروضة الندية شرح الدرر البهية
المؤلف: أبو الطيب محمد صديق خان بن حسن بن علي ابن لطف الله الحسيني البخاري القِنَّوجي (المتوفى: 1307هـ)
الناشر: دار ابن حزم ، ص 781









Monday 8 October 2018

مفتی طارق مسعود کی امام حسن ع پر کثرت ازدواج کی تہمت

**مفتی طارق مسعود ناصبی کی امام حسن علیہ السلام پر تہمت**

ڈاکٹر علی محمد صلابی امام حسن علیہ السلام کی ازدواج کی کثرت سے متعلق روایات کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
آپ رض کی بیویوں کی تعداد سے متعلق ستر، نوے، ڈھائی سو، یا تین سو  یا اس سے زیادہ ہونے کی روایات شاذ ہیں اور یہ من گھڑت موضوع اور جھوٹی روایات ہیں۔

مزید لکھتے ہیں:

حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی شادیوں کے بارے میں تخیلاتی تعداد ذکر کرنے والی کوئی ایک روایت بھی سند کے اعتبار سے ثابت نہیں ہوتی، اس لیے ان روایات پر  اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ان میں شبہات اور نقائص پائے جاتے ہیں

سیرت امیرالمومنین خامس الخلفاء الراشدین الحسن ابن علی رض علی محمد الصلابی صفحہ:24،26 طبع: دار المعرفت بیروت۔