Tuesday 7 July 2020

امام علی پر سب و شتم اور اجتہاد معاویہ (ل)

 علامہ احمد الغمازی الشافعی اپنی کتاب الجواب للسائل المستفیذ لکھتےہیں کہ:


 وفي الصحيح ، صحيح مسلم عن علي عليه السلام قال : «ولذي فلق الحبة وبرأ النسمة إنه لعهد عهده إلي رسول الله صلي الله عليه وسلم : أن لا يحبني إلا مؤمن ولا يبغضني إلا منافق ». وفي الصحيح الحاكم و غيره : «من سبّ عليا فقد سبّني ومن سبّني فقد سب الله» و من سبّ الله فقد كفر ، وفي الصحيح و غيره مما تواتر تواتراً مقطوعاً به : «من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه» ... والمقصود من هذه الأحاديث الصحيحة المتفق عليها مع ما تواتر من لعن معاوية لعلي علي المنبر طول حياته وحياة دولته إلي عمر بن عبد العزيز وقتاله وبغضه ، يطلع من أنه منافق كافر فهي مؤيدة لتلك الأحاديث الأخري۔ ويزعم النواصب أن ذلك (أعني لعن معاوية لعلي) كان اجتهاداً ، مع أن النبي صلي الله عليه وسلم يقول في مطلق الناس : «لعن المؤمن كقتله» فإذا كان الإجتهاد يدخل اللعن وإرتكاب الكبائر فكل سارق وزان وشارب وقاتل يجوز أن يكون مجتهداً ، فلا حد في الدنيا ولا عقاب في الآخرة۔




کتاب صحیح مسلم میں یہ حدیث علی (ع) سے نقل ہوئی ہے کہ: اس خدا کی قسم کہ جس نے دانے کو شگاف کیا ہے اور انسان کو خلق کیا ہے، میں نے رسول خدا کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ: اے علی تم سے محبت نہیں کرے گا، مگر مؤمن اور تم سے دشمنی نہیں کرے گا، مگر منافق، اور کتاب صحیح حاکم وغیرہ میں آیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: جو بھی علی کو گالی دے گا تو اس نے مجھے گالی دی ہے اور جو مجھے گالی دے گا تو اس نے خدا کو گالی دی ہے اور جو خدا کو گالی دے گا، وہ کافر ہے۔ اور متواتر و صحیح احادیث سے یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ رسول خدا کی حدیث ہے کہ ان حضرت نے فرمایا: جس جس کا میں مولا ہوں، پس میرے بعد علی بھی اس اس کا مولا ہے، خدایا اس سے محبت فرما جو علی سے محبت کرے اور اس سے دشمنی فرما جو علی سے دشمنی کرے۔ ان صحیح احادیث سے اور اسی طرح علی پر سبّ و لعن اور معاویہ کا ان حضرت سے جنگ کرنا کہ جو عمر ابن عبد العزیز کے زمانے تک جاری رہی، یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ معاویہ، منافق اور کافر ہے، البتہ ان روایات کے علاوہ کوئی دوسری روایات ہیں کہ جو اسی نتیجے کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ ناصبی کہ جو گمان کرتے ہیں کہ معاویہ یہ سارے کام اجتہاد کی وجہ سے انجام دیتا تھا، یہ اصل میں ان غلط بہانوں سے معاویہ کے دامن کو پاک کرنا اور پاک رکھنا چاہتے ہیں، ایسے کہ گویا ان ناصبیوں نے رسول خدا کے اس فرمان کو نہیں سنا کہ: مؤمن پر لعنت و نفرین کرنا، اسکو قتل کرنے کے مترادف ہے، لہذا اگر ہر جرم جیسے لعنت و نفرین یا گناہان کبیرہ کی اجتہاد کے ذریعے سے توجیہ کرنا صحیح ہو تو پھر ہر چور، زنا کرنے والا، شراب خوار اور قاتل اپنے جرم کو اجتہاد کے ذریعے سے توجیہ کر کے حدّ شرعی (سزا) سے فرار کر سکتا ہے تو اس سے دنیا میں شرعی سزا ملنا اور آخرت میں عذاب ہونا بالکل ختم ہو جائے گا۔


 الجواب المفيد ، للسائل المستفيد ، احمد الغماري ، صفحہ: 58، 59 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ،‌ بيروت ، 1423 هـ .