Thursday 15 March 2012

فرزندِ عمر کا عقیدہِ تحریفِ قرآن۔۔

فرزندِ عمر کا عقیدہِ تحریفِ قرآن۔۔
حضرت عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں: بے شک تم لوگوں میں سے یہ بات کوئی شخص کہے گا کہ میں نے تمام قرآن حاصل کرلیا ہے حالانکہ اس کو یہ بات معلوم نہیں کے مکمل قرآن کتنا تھا کیوں کہ قرآن کا بہت حصہ جاتا رہا ہے لیکن اس شخص کو یہ کہنا چائیے کہ تحقیق میں نے قرآن اتنا حاصل کرلیا جتنا ظاہر ہوا۔

سندِ صحیح۔

الاتقان فی علوم القرآن امام جلال الدین ابوبکر السیوطی ص۱۴۵۵ [عربی] ج۲ ص ۶۴ [اردو] طبع لاہور







Sunday 11 March 2012

حکمِ خدا کی نافرمانی اور سنت کی پیروی؟؟

 قال ابن جرير: حدثني يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن علية، حدثنا حميد قال: قال موسى بن أنس لأنس ونحن عنده: يا أبا حمزة إن الحجاج خطبنا بالأهواز ونحن معه، فذكر الطهور فقال: اغسلوا وجوهكم وأيديكم، وامسحوا برؤوسكم وأرجلكم، وإنه ليس شيء من بني آدم أقرب من خبثه من قدميه، فاغسلوا بطونهما وظهورهما وعراقيبهما، فقال أنس: صدق الله، وكذب الحجاج، قال الله تعالى: { وَٱمْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ } قال: وكان أنس إذا مسح قدميه، بلهما، إسناد صحيح إليه، وقال ابن جرير: حدثنا علي بن سهل، حدثنا مؤمل، حدثنا حماد، حدثنا عاصم الأحول عن أنس قال: نزل القرآن بالمسح، والسنة بالغسل، وهذا أيضاً إسناد صحيح

حضرت موسی بن انس نے حضرت انس بن مالک سے لوگوں کی موجودگی میں کہا کے حجاج نے اہواز میں خطبہ دیتے ہوئے طہارت اور وضوکے احکام بتاتے ہوئے کہا کے منہ ہاتھ دھوواور سر کا مسح کرو اور پیروں کو دھویا کرو
 عموماَ پیروں پر ہی گندگی لگتی ہے پس تلووں کو اور پیروں کی پشت کو اور ایڑی کو خوب اچھی طرح دھویا کرو۔ حضرت انس نے جواب میں کہا کے اللہ سچا ہے اور حجاج جھوٹا ہے۔اللہ فرماتا ہے  وَٱمْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ۔ اور حضرت انس کی یہ عادت تھی کہ پیروں کا مسح کرتے تھے اور انہیں تر کرلیتے تھے۔ اور حضرت انس ہی سے مروی ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ قرآن میں پیروں پر مسح کرنے کا حکم ہے ہاں رسول ص کی سنت انہیں دھونا ہے۔

امام ابن کثیر فرمانے ہیں کہ اس کی اسناد صحیح ہیں۔




Monday 5 March 2012

حضرت عمر کا خواہشات میں مبتلا ہونا اور امام غزالی کا اعتراف

امام ابو حامد الغزالی عترافِ حقیقت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جہت و برہان کا چہرہ روشن ہوگیا اور خطبہ روزِغدیرِ خم کے متنِ حدیث پر مکمل حیثیت سے تمام مسلمین کا اجماع ہے کہ رسول اللہ ص نے فرمایا کہ جس کا میں مولا اس کے علی بھی مولا ہیں۔ پس حضرت عمر نے کہا کے مبارک ہو اے علی آپ میرے اور ہر مومن ہ مومنہ کے آقا و مولا ہوگئے اس مبارک باد کا مطلب فرمانِ رسول ص کا مان لینا اور حضرت علی کی حاکمیت کو بہ رضا و رغبت قبول کرنا تھا لیکن اس کے بعد ان پر حرص و ہوا غالب آگیا ، مسندِ ریاست و خلافت کی عمارت بلند کرنے، حکومت کا سہارا باندھنے، لہراتے پھریروں میں ہوا کی سنسناہٹ گروہ گروہ سواروں اور پیادوں کے ہجوم اور شہروں کو فتح کرنے کی محبت میں خواہش نفسانی کی شراب نوش کی اور پچھلی عادتوں کی جانب لوٹ گئے خدا و رسول ص کے حکم کو پسِ پشت ڈادیا اور دین کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالا،اور ان لوگوں نے خدا کے ساتھ برا معاملہ کیا۔ اور جب رسول ص کا آخری وقت آیاتو آپ ص نے کاغذ ہ قلم مانگا تاکہ تمہاری مشکل حل کروں اور اپنے بعد خلیفہ بناجاوں، لیکن حضرت عمر نے کہا کہ اس شخص یعنی رسول ص کو چھوڑ دو یہ [معاذاللہ] ہذیان بک رہا ہے۔ پس جب قرآن و حدیث کی تاویل سے کام نہ چل سکا تو اجماع کا سہارا لیا۔
                                              سرالعالمین ماکشف فی الدارین امام غزالی ص ۱۰-۱۱ طبع بیروت۔
 






امامِ اہلِ سنت سبط ابن جوزی اپنی کتاب تذکرۃ الخواص الائمہ میں امام غزالی کے اس قول کو نقل کیا ہے