Monday 11 February 2019

اہل شام کی بغاوت قاضی شوکانی

قاضی شوکانی اہل شام کی بغاوت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

"اہل صفین کی بغاوت ظاہر ہے۔ اگر اس کے بارے میں صرف یہ ایک ارشاد نبوی (ص) ہی ہوتا جو آپ (ص) نے عمار سے فرمایا تھا کہ تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا تو یہی بطور ثبوت کافی تھا پھر معاویہ کو علی (ع) کی مخالفت کا حق نہیں تھا، لیکن انہوں نے ریاست اور دنیا کو طلب کرنے کا ارادہ ایسے لوگوں کے بل پر کیا جو نادان تھے اور منکر و معروف کو نہیں جانتے تھے پس انہیں معاویہ کی جانب سے دھوکا دیا گیا کہ وہ حضرت عثمان کا قصاص چاہتے ہیں یہ تدبیریں ان پر کارگر ہوگئیں اور انہوں نے معاویہ کے لیےجان و مال کی قربانیاں دیں اور ان کے خیرخواہ بن گئے۔ یہاں تک کے علی (ع) اہل عراق سے کہتے تھے کہ میں چاہتا کہ تمھارے دس کے بدلے میں اہل شام کا ایک آدمی لے لوں جس طرح درھم دینار سے بدلہ جاتا ہے۔ شامی عوام پر تو تعجب نہیں تعجب ان حضرات پر ہے جو اہل دین و بصیرت تھے مثلا بعض صحابہ و تابعین جو معاویہ کی جانب مائل تھے۔ میری سمجھ نہیں آتا کہ اس معاملے میں کیا چیز ان سے چھپی رہ گئی تھی کہ انہوں نے اہل باطل (اہل شام) کی مدد کی اور اہل حق (حضرت علی) کا ساتھ چھوڑ دیا جبکہ انہوں نے اللہ کے کلام میں پڑھ رکھا تھس کہ اگر ایک گروہ دوسرے گروہ کے خلاف بغاوت کرے تو باغیوں سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے امر کی جانب لوٹ آئیں اور انہوں نے وہ متواتر احادیث بھی سنی ہوئیں تھیں کہ جب تک صریح کفر کا ارتکاب حاکموں سے نہیں دیکھو ان کی نافرمانی حرام ہے اور پھر انھوں نے رسول اللہ (ص) کا ارشاد بھی سنا تھا جو آپ نے عمار بن یاسر رض سے فرمایا تھا۔ اگر صحابیت کا مرتبہ عظیم نا ہوتا اور خیر القرون کا فضل بلند نہیں ہوتا تو میں کہتا کہ دنیا کے مال و محبت نے اس امت کے سلف کو بھی اسی طرح آزمائش نیں ڈالا جس طرح اس نے خلف کو ڈالا۔"

وبل الغمام على شفاء الأوام  قاضی شوكانی جلد:2 صفحہ: 416،417