Monday 14 November 2011

آیاتِ غدیر میں لفظ کافر کی تکرار کیوں؟؟؟

غدیرِ خم سے متعلق نازل ہونے والی آیات " يَا أَيُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ۔۔۔ سورہ مائدہ ۶۷،  الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ ۔۔۔۔ سورہ مائدہ ۳، سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِّلْكَافِرينَ لَيْسَ لَہُ دَافِعٌ... سورہ معارج ۱،۲" پر اگر آپ غور کریں تو ان تمام آیات
 میں مسلسل کافروں کا ذکر کیوں مذکور ہے؟۔ حالانکہ ان تمام مواقعوں پر کوئی
 ایک بھی کافر موجود نہیں تھا، اور جہاں تک ظاہری کفر کا تعلق ہے تو وہ اس واقعہ سے ۲ سال قبل فتح مکہ میں ہی مایوس ہوگئے تھے۔ اب غدیرِ خم کی آیات میں کفار سے مراد کون لوگ ہیں؟؟؟
غدیرِ خم سے متعلق نازل ہونے والی آیات میں لفظِ کافر کی تکرار ثابت کرتی ہے کے یہاں کفار سے مراد ولایتِِ علی ع کا انکاری ہے۔ھمارے استدلال کی تائید سورہ معارج 
کی مندرجہ بالا آیت کے الفاط کررہے ہیں۔ جارث بن نعمان فہری مسلمان تھا،
 نماز، روزہ، حج ،زکوۃ ادا کرنے والا جس کا اقرار خود اس نے آپ ص کے سابنے بھی کیا، مگر صرف علی ع کی ولایت کو منجانب اللہ نہ سمجھنے کی وجہ سے اس پر 
عذاب نازل ہوا، " یہ وہ عذاب ہے جس سےکافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے" سورہ معارج 
۲،یہی ہو عذاب تھا جو علی ع کی ولایت سے انکار کی صورت میں حارث بن نعمان پر ازل ہوا۔ 


دعاگو تابش علی 

No comments:

Post a Comment